حضرت عمر فاروق (رضي الله عنه) اسلام کے بعد دوسرے خلیفہ ٌراشدین کا دوسرا خلیفہ تھے۔ ان کے والد کا نام خطاب تھا اور ان کا جنم مکہ شہر میں ہوا تھا۔ ان کی زندگی اور ان کے اعمال اسلامی تاریخ کی نگاری میں ایک بہت اہم مقام رکھتے ہیں۔
حضرت عمر فاروق (رضي الله عنه) کی زندگی کافی دلچسپ اور سرگرم کن رہی۔ وہ پہلے اسلام کے دشمن تھے، لیکن بعد میں اسلام قبول کر لیا۔ حضرت عمر (رضي الله عنه) کا اسلام قبول کرنے کے بعد ان کے عملوں نے دیکھایا کہ وہ ایک سخت، امین اور عادل خلیفہ تھے۔
حضرت عمر فاروق (رضي الله عنه) کا خلافتی دور کافی باریک دماغی اور انصاف کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے۔ انہوں نے خلافت کے دوران بہت سارے بڑے فیصلے کیے جن میں شامل ہیں فتحِ مصر، فتحِ بیت المقدس، بصریہ کی جنگ، حج کی سلامتی کے لئے خطاب۔ حضرت عمر (رضي الله عنه) کے دوران مسلمانوں کی صورتحال بہتر ہوئی اور ان کے خلافتی دور میں مسلمانوں کی تعداد میں بڑی اضافہ ہوا۔
حضرت عمر فاروق (رضي الله عنه) کی شخصیت پر بہت ساری کتابیں لکھی گئی ہیں، جن میں ان کے اعمال، خطبے، حکم
حضرت عمر فاروق (رضي الله عنه) خلافت کے دوران بہت سارے بڑے فیصلے کیے جن میں شامل ہیں:
فتحِ مصر: حضرت عمر (رضي الله عنه) نے مصر پر حملہ کیے بغیر اس کے شہریوں کی اجازت لی اور ان کے ذمہ داریوں پر عمل کیا۔
فتحِ بیت المقدس: حضرت عمر (رضي الله عنه) نے بیت المقدس کو فتح کیا، جسے بعض مسلمانوں کا دائرہٴ روحانی کہا جاتا ہے۔
بصریہ کی جنگ: حضرت عمر (رضي الله عنه) نے بصریہ کی جنگ میں کامیابی حاصل کی۔
حج کی سلامتی کے لئے خطاب: حضرت عمر (رضي الله عنه) نے اپنی خطابات میں حج کی سلامتی کی ضرورت کو بہت اہمیت دی اور اس کے
لئے تمام ترتیبات کی۔
حضرت عمر فاروق (رضي الله عنه) کے خلافتی دور میں انہوں نے بہت سارے بڑے اصلاحات کیے، جن میں شامل ہیں:
حجب پر پابندی کے اعمال: حضرت عمر (رضي الله عنه) نے عورتوں کو حجاب پہننے پر پابند کیا اور نماز پڑھتے وقت ان کے پیچھے نماز نہیں پڑھی جاتی تھی۔
مدرسوں کی تعیناتی: حضرت عمر (رضي الله عنه) نے ایک مرتبہ مدرسے کی تعیناتی کے لئے پیش خمس سال کا پلان پیش کیا۔
تقسیمِ وراثت: حضرت عمر (رضي الله عنه) ن
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اپنی مضبوط شخصیت اور قائدانہ خصوصیات کی وجہ سے مشہور تھے جس کی وجہ سے انہیں "الفاروق" یعنی "حق و باطل میں تمیز کرنے والا" کا لقب ملا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو انصاف پر سختی سے عمل کرنے اور اسلامی معاشرے میں قانون کی حکمرانی کے لیے ان کی کوششوں کے لیے جانا جاتا تھا۔ وہ ایک مضبوط اور فیصلہ کن رہنما تھے جو کمیونٹی کے مفاد میں سخت فیصلے کرنے سے نہیں ڈرتے تھے۔ اس نے اپنی خلافت کے دوران بہت سے انتظامی اصلاحات بھی نافذ کیں اور سماجی بہبود کے مختلف پروگرام متعارف کروائے۔
ان کی ذاتی طاقت اور نظم و ضبط بھی مشہور تھے۔ مثال کے طور پر، وہ دن میں روزہ رکھنے اور راتوں کو عبادت اور عبادت میں گزارنے کے لیے جانا جاتا تھا۔ وہ جسمانی طور پر بھی مضبوط اور ایک ہنر مند لڑاکا تھا، جو کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی ساتھی رہا ہے اور اپنی زندگی میں کئی لڑائیاں لڑ چکا ہے۔
مجموعی طور پر، حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسلامی تاریخ میں ایک طاقتور اور قابل احترام رہنما تھے، جو اپنے کردار کی مضبوطی اور انصاف کے لیے اپنی غیر متزلزل وابستگی اور امت مسلمہ کی بہتری کے لیے مشہور تھے۔
0 Comments